خواجہ سیّد فقیر محمد رحمتہ اللہ علیہ
تعارف و ولادت
حضرت قبلہ عالم خواجہ سیّد نور محمد عُرف باواجی رحمتہ اللہ علیہ کے دوسرے فرزند ہیں اسم مبارک سیّد فقیر محمد اسم باسمٰی ہے ۔
آپ کی ولادت ِباسعادت غالباََ ۱۲۱۳ ھ میں تیزئی شریف (علاقہ تیراہ) میں ہوئی۔
تعلیم و بیعت
آپ نے علومِ ظاہری و باطنی اپنے والد گرامی حضرات باواجی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کئے اور قلیل عرصہ میں خلافت و مجاز بیعت
سے سرفراز ہوئے۔ اور اس درجہ کمال کیا کہ شاید و باید۔ایّامِ صغرسِنی سے ہی ذکر و فکر ، مراقبہ اور اتباعِ شریعت میں مصروف
رہے۔ آپ اپنے وقت کے ابدال تھے۔
مقام
بوقتِ ولادت حضرت سیّد فیض اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے لب ہائے مبارک خواجہ سیّد فقیر محمد رحمتہ اللہ علیہ کے منہ میں ڈالے
اور فرمایا ’یہ لڑکا بڑا نیک بخت ہوگا‘۔ چنانچہ آپ کا چہرئہ انور، انوارِ الٰہی سے درخشاں تھا۔
آپ کو وہ کمالات حاصل تھے جو اس وقت دوسروں کو بہت کم حاصل تھے۔ قرآن مجیدکے ایک ایک حرف کے
جُملہ فوائد و خواص، اسرار و نکات آپ کو ایسے معلوم تھے کہ دوسروں کے لئے ان کا سمجھنا دشوار تھا۔ اپنے وقت میں مرجع الی اللہ تھے۔ ولادت کے وقت والدہ ماجدہ نے ہر چند کوشش فرمائی مگر لاحاصل ،اتنے میں خواجہ فیض اللہ رحمتہ اللہ علیہ تشریف
لے آئے اور اپنی زبانِ مبارک اور لعاب دہن آپ کے منہ میں ڈالا تو آپ نے اپنی والدہ محترمہ کا دودھ پیا۔
واصل الی اللہ
آپ اس دنیا ئے دُوں سے ۲۹ محرم الحرام ۱۳۱۵ ھ ، ۱۸۹۷ ء مابین ظہر و عصر عالم جاودانی کو سدھار گئے۔
خوراک و تصّرفات
۔1۔ گُفتہ او گُفتہ اللہ بود حضرت خواجہ سیّد فقیر محمد رحمتہ اللہ علیہ امر تسر میں مسجد خیر دین مرحوم میں تشریف
فرما تھے کہ ایک برقعہ پوش عورت حاضرِ خدمت ہوئی اور عرض کیا کہ میں بیوہ ہوں ، میرا لڑکا علی محمد بی اے میں تعلیم حاصل
کر رہا تھا کہ اس کا والد فوت ہوگیا۔ گھر کا سامان بیچ کر لڑکے کی تعلیم جاری رکھی لیکن میری بدقسمتی کہ سب کچھ خرچ
کر دینے کے بعد بھی لڑکا فیل ہوگیا، اب مزید تعلیم دلوانا میرے بس کی بات نہیں۔ اس طرح سابقہ محنت اور خرچہ رائیگا گیا۔
یہ کہہ کر وہ عور ت رونے لگی۔ آپ نے اسے تسلی دی اور فرمایا:
’فکر نہ کرو، لڑکا پاس ہوجائے گا‘
تسلی اور تشفی دے کر رخصت فرما دیا۔ ناواقف لوگ سمجھے کہ محض تسلی دینے کے لئے آپ نے اس عورت کو یہ بات کہہ دی ہے۔ لیکن اسی شام اطلاع آگئی کہ علی محمد پاس ہے پہلے اطلاع غلط دی گئی ہے، اصل میں ایک سِکّھ لڑکا فیل ہوا ہے، سبحان اللہ ؎
شاہ بن جائوں میں اگر مجھ کو
اپنے کوچے کا تُو گدا جانے
علی محمد پسرور میں مجسٹریٹ رہے پھر سینئیر سب جج ہوگئے اور بعد میں سیشن جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ؎
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
۔2۔ حضرات خواجہ ایک دفعہ چک قریشیاں میں خلیفہ مولوی غلام نبی رحمتہ اللہ کے گھر تشریف فرما تھے کہ کچھ مستورات
حاضر خدمت ہوئیں، آپ اس وقت باہر تشریف لے جارہے تھے۔ اس لئے مولوی صاحب نے ایک خاتون سے
مخاطب ہو کر کہا : ’چچی صاحبہ، آپ کے کام کبھی ختم نہ ہوئے، آپ باربار حضور کو تکلیف دیتی ہیں ‘
آپ نے وہیں کھڑے کھڑے فرمایا : ’کلمہ پڑھسی ‘
مولوی صاحب نے عرض کی: ’حضور، یہ تیسری عورت برہمن ہے ‘
آپ نے فرمایا: ’میں باہمنی مسلمانی نہ جان سی! کلمہ پڑھانا سی پڑھا چھوڑ سی ‘ (میں برہمن مسلمان نہیں جانتا،
کلمہ پڑھانا تھا پڑھا دیا ہے)۔ سب کو کلمہ کی تلقین فرمائی اور مسجد تشریف لے گئے۔
دوسرے لوگوں نے سنا تو حضور کی سادگی پر ہنسنے لگے کہ برہمنی پر کلمہ کا کیا اثر ہوگ لیکن بقول کسے ؎
گُفتہ او گُفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبد اللہ بوس
چناچہ وہ برہمن عورت علی پور میں آپکی خدمت میں حاضر ہوئی اور مُسلمان ہوگئی ، حضرت خواجہ نے اسے مراقبہ کی تلقین فرمائی۔
۔3۔ ڈھوک گرجہ ، (جو کہ راولپنڈی سے چار کوس کے فاصلہ پر ہے) ، میں ایک شخص پیر بخش نے پانی کی قلت کی وجہ
سے رفاہِ عامہ کے لیے کنواں کُھدوایا مگر پانی نہ نکلا، پیر بخش راولپنڈی میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور
سارا قصہ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا:
’پانی آجائے گا، اسے سنبھالنے کی فکر کرو! ‘
پیر بخش جب واپس گھر پہنچا تو پوتے نے بتایا: ’بابا، کنویں میں پانی آگیا ہے۔ ‘ بہت حیران ہوا، جا کر دیکھا
واقعی پانی آگیا تھا چکھا تو پانی کسی پہاڑی علاقے کا معلوم ہوا۔
ارد گرد زمین میں اور بھی کنویں کھودے اور پانی کی تکلیف سے رہائی حاصل ہوئی ؎
جہاں سر مستیاں تقسیم ہوتی ہیں نگاہوں میں
وہ اہلِ دل کا مے خانہ بڑی مشکل سے ملتا ہے
۔4۔ زبانِ ولی ایک دفعہ آپ مرجال میں مسجد میں قیام پذیر تھے کہ میاں محمد مستری حاضرِ خدمت ہوا۔ آپ نے خیریت پوچھی تو اس نے عرض کی کہ میرے لڑکے کو لقوہ ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمای
’اُسے جنگلی کبوتر کا شوربہ پلائو! ‘
عرض کی: ’حضور ہمارے یہاں جنگلی کبوتر نہیں ملتے‘عرض کی:
’حضور ہمارے یہاں جنگلی کبوتر نہیں ملتے‘
‘ارشاد فرمایا: ’مل جائے گا‘
میاں محمد جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ ایک جنگلی کبوتر گھر میں بیٹھا ہے، اس نے بآسانی اسے پکڑلیا، حتیٰ کہ کبوتر نے
اُڑنے کی کوشش بھی نہیںکی۔ اُسے ذبح کر کے شوربا لڑکے کو پلایاگیا تو لڑکا فی الفور تندرست ہوگیا
آنکہ بخشدبے یقیناںرا یقیں آنکہ لرزد ازسجود او زمیں
احباب جو حاضر تھے سخت حیران تھے کہ جنگلی کبوتر کہاں سے آیا اور پھر اُس نے اُڑنے کی کوشش کیوں نہ کی۔
۵۔5. تاتوانی گردن از حُکمش میچ
تانہ پیچد گردن از حکم تو ہیچ
ایک دفعہ آپ سفر پنجاب پر تشریف لے جارہے تھے، چورہ کے ایک زمیندار یٰسین کو معلوم ہوا تو لنگر سٹیشن پر جا
کر ملاقات کی اور عرض کی: ’حضور، میرا اراداہ بند باندھنے کا تھا، پہلے کئی دفعہ باندھا ہے لیکن ہر دفعہ ٹوٹ جاتا ہے ـ ‘
آپ نے چند کنکریاں لے کردَم فرمایا: ’یہ کنکریاںبند میں رکھ دینا ‘
یٰسین زمیندار نے بموجبِ ارشاد بند بنایا اور آپ کی دی ہوئی کنکریاں اس میں رکھ دیں، اس کے بعد بارہا پانی
بند کے اُوپرسے بھی گزرا لیکن بند کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
وہ بند اب بھی موجود ہے۔
۶ ۔6. دیدئہ ِ بینا آپ کے صاحبزادے قبلہ سیّد محمد سید شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک دفعہ مقرب خاں کو مصریال
سے کچھ اشیاء دے کر حضور کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ اشیاء لے کر حاضر ہوا، حضور نے اسے دیکھتے ہی ارشاد فرمایا:
’فوراََ سیدھے گھر چلے جائو!‘
عرض کی: ’حضور، صاحبزادہ صاحب نے فرمایا مصریال جلدی واپس آنا‘
آپ نے فرمایا: ’گھر سے ہو کر مصریال جانا‘
مقرب خاں بھرپور ضلع جہلم کا رہنے والا تھا، جب گائوں پہنچا تو راستے میںگائوں کی ایک عورت ملی، مقرب خاں
کو دیکھ کر حیران رہ گئی، دریافت کرنے لگی: ’ تمھیں خبر مل گئی ہے؟‘
مقرب خاں نے پوچھا: ’ خبر ؟ کیسی خبر؟‘
اس نے بتایا کہ تیرا والد فوت ہو گیا ہے۔ گھر پہنچا تو میّت کو غسل دیا جا رہا تھا۔ چنانچہ جنازہ میں شامل ہوگیا،
سب گائوں والے حیران ہوئے اور پوچھا کہ تم وقت پر کیسے پہنچ گئے؟
مقرب خاں نے بتایا : ’حضرت صاحب نے گھر جانے کی ہدایت کی تھی، شاید یہی وجہ تھی!‘